جدید دنیا میں کوئی بھی سماج عورت کی بھرپور شرکت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا لیکن بدقسمتی سے ہمارا سماج ابھی تک پدر شاہی کے فرسودہ نظام کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے جہاں بنیادی حقوق دینا تو دور کی بات، عورت کو ابھی تک بدترین سماجی امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی اسے گھریلو تشدد، میرٹل ریپ، وکٹم بلیمنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی سیکس اوبجیکٹ کے طور پر ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا آرٹ، ادب اور فلسفہ بھی عورت کی محکومیت سے جڑے کلیشیز کو ہی پرموٹ کر رہا ہے۔ وہ ہمارے اشتہارات کی ماڈلز ہوں، سوپ اوپراز کی اداکارائیں یا پھر شعر و ادب کے روایتی کریکٹرز، عورت کو انہی رولز تک محدود رکھا جاتا ہے جو پیٹرائیکی نے ان کے لیے منتخب کیے ہیں۔ نیٹو میڈیا ان تمام سماجی اعتبارات، آرٹ اور ادب کے پیمانوں اور اخلاقہ اصولوں کی ڈی کنسٹرکٹ کرنا چاہتا ہے جو عورت کی غلامی کی تائید کرتے ہیں۔