کسی عقلمند آدمی کا قول ہے کہ اگر ہم اپنے تاریخی مغالطے ختم کردیں تو ہمارے حال کے ستر سے اسی فیصد مسائل خود بہ خود حل ہو جائیں گے۔ شاید ہمیں بھی اس مقولے پر دھیان دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہم نے اپنی تاریخ کو اپنے طبقے/ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر اتنا مسخ کر لیا کہ اب بہت سارے جھوٹ ہی ہمارا سب سے بڑا سچ بن چکے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سچ کو جھوٹ بنانے کے اس شعوری اور سیاسی عمل میں ہمارے معاشرے، ریاست، آرٹسٹوں، شاعروں اور ادیبوں نے بھی کھل کر حصہ ڈالا اور تاریخ کا ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا جو مقامیت کے وجود ہی سے انکاری ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ مسخ شدہ تاریخ کو ’عظیم‘ اور ’گلوریفائڈ‘ ثابت کرنے کے لیے اس خطے کی اساطیر ، ایلیٹ فکری روایات اور لٹریری جمالیات بھی پیش پیش رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنی تاریخ کو ری وزٹ کریں اور اسے مقامیت کی آنکھ سے دیکھیں۔